بجھ کر بھی شعلہ دامِ ہوا میں اسیر ہے
قائم ابھی فضا میں دھوئیں کی لکیر ہے
گزرا ہوں اسکے در سے تو کچھ مانگ لوں مگر
کشکول بے طلب ہے،۔۔ صدا بے فقیر ہے
جو چاہے اچھے داموں میں اس کو خرید لے
دل پر لگی ہے سب کے وہی مہر برف کی
ظاہر میں گرم جوشئ دستِ سفیر ہے
ڈھونڈے سے آدمی نہیں ملتا یہاں پہ زیبؔ
یوں اس دیار بحر میں گوہر کثیر ہے
زیب غوری
No comments:
Post a Comment