بے حسی پر مِری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
دھو کے تُو میرا لہو، اپنے ہنر کو نہ چھپا
کہ یہ سرخی تِری شمشمیر کا جوہر ہی تو ہے
راہ نکلی تو کوئی توڑ کے چٹانوں کو
ساتھ ہوں میں بھی کہ دل کی یہی مرضی ہے مگر
دشت بھی بے در و دیوار کا اک گھر ہی تو ہے
تھک کے خوابوں کی گزرگاہ سے اٹھ آیا میں زیبؔ
کون دیکھے وہی دیکھا ہوا منظر ہی تو ہے
زیب غوری
No comments:
Post a Comment