Wednesday 4 May 2016

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

بے حسی پر مِری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
دھو کے تُو میرا لہو، اپنے ہنر کو نہ چھپا
کہ یہ سرخی تِری شمشمیر کا جوہر ہی تو ہے
راہ نکلی تو کوئی توڑ کے چٹانوں کو
سامنے تیرہ و تاریک سمندر ہی تو ہے
ساتھ ہوں میں بھی کہ دل کی یہی مرضی ہے مگر
دشت بھی بے در و دیوار کا اک گھر ہی تو ہے
تھک کے خوابوں کی گزرگاہ سے اٹھ آیا میں زیبؔ
کون دیکھے وہی دیکھا ہوا منظر ہی تو ہے

زیب غوری

No comments:

Post a Comment