Wednesday 4 May 2016

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو
ہم جگاۓ رکھیں گے گھر کے سائبانوں کو
روشنی کے مینارے، شہر میں ہوئے قائم
کالا پوت ڈالو اب، سارے شمع دانوں کو
تیز بہتے قدموں سے ڈھک گئی ہیں سب سڑکیں
آہٹوں کی عادت تھی سُونے پائیدانوں کو
یوں ہی بس سلگنے کا سلسلہ رکھو جاری
بھولنے نہیں دینا فرض راکھدانوں کو
فکر کے سلیقے تو ہم خرید لائیں ہیں
مشق جاری رکھنا ہے اپنی آسمانوں کو

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment