زور بڑھنے لگا ہواؤں میں
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
کب کے معتوب ہو گئے ہوتے
خاک شدت رہی خطاؤں میں
سوندھی مٹی وہ ادھ جلے چولہے
کالی آنکھیں، گداز سینہ، کمر
ٹھہرئیے مختلف سراؤں میں
ساری راہیں گنوا کے بیٹھ گئے
شوق تھا بیٹھنے کا چھاؤں میں
لوٹ جاؤ زمیں پہ آشفتہؔ
کوئی دم خم نہیں خلاؤں میں
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment