Wednesday 4 May 2016

زور بڑھنے لگا ہواؤں میں

زور بڑھنے لگا ہواؤں میں
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
کب کے معتوب ہو گئے ہوتے
خاک شدت رہی خطاؤں میں
سوندھی مٹی وہ ادھ جلے چولہے
دل دھڑکتے ہوئے گپھاؤں میں
کالی آنکھیں، گداز سینہ، کمر
ٹھہرئیے مختلف سراؤں میں
ساری راہیں گنوا کے بیٹھ گئے
شوق تھا بیٹھنے کا چھاؤں میں
لوٹ جاؤ زمیں پہ آشفتہؔ
کوئی دم خم نہیں خلاؤں میں

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment