جو میری آہ سے نکلا دھواں ہے میری مٹی کا
مِرے اندر نِہاں آتش فشاں ہے میری مٹی کا
دِیے ہیں طاق پر روشن مگر ضو میرے اندر ہے
جو کچھ کچھ تیرگی ہے وہ سماں ہے میری مٹی کا
مِرے جلووں کی پامالی نہ دیکھی جائے گی مجھ سے
ضرور اسکی شباہت میری سوچوں سے الگ ہو گی
تصور میں جو دیکھا ہے گماں ہے میری مٹی کا
سمندر اور دریا ہیں پرانے آشنا میرے
برستا ہے جو پانی مہرباں ہے میری مٹی کا
مِرے اشعار میں آفاق و انفس کی کہانی ہے
مِرا ہر لفظ شِیریں ترجماں ہے میری مٹی کا
اویسیؔ قلب و جاں کرتے رہے شعر و ادب کو ہم
اگرچہ یہ بھی جنسِ رائیگاں ہے میری مٹی کا
جمال اویسی
No comments:
Post a Comment