ہمارے پاس رہے یا کنارا کر جائے
اداسیوں کا وہ کوئی تو چارا کر جائے
ہم آج ہی سے توقع اٹھائے لیتے ہیں
مبادا کل وہ ہمیں بے سہارا کر جائے
خفا وہ ہم سے ہے لیکن کبھی ملے تو سہی
ہم اس کے بعد جئیں بھی تو کس حوالے سے
وہ منہ سے کچھ بھی نہ بولے اشارا کر جائے
تمام دن جو کڑی دھوپ میں بھی ختم نہ ہو
وہ کام شام کا پہلا ستارا کر جائے
قتیلؔ پی تو کیا ہے خوشی سے زہرِِ فراق
خدا کرے کہ طبیعت گوارا کر جائے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment