Tuesday, 3 May 2016

ہمارے پاس رہے یا کنارا کر جائے

ہمارے پاس رہے یا کنارا کر جائے
اداسیوں کا وہ کوئی تو چارا کر جائے
ہم آج ہی سے توقع اٹھائے لیتے ہیں
مبادا کل وہ ہمیں بے سہارا کر جائے
خفا وہ ہم سے ہے لیکن کبھی ملے تو سہی
وفا نہیں تو جفا ہی دوبارا کر جائے
ہم اس کے بعد جئیں بھی تو کس حوالے سے
وہ منہ سے کچھ بھی نہ بولے اشارا کر جائے
تمام دن جو کڑی دھوپ میں بھی ختم نہ ہو
وہ کام شام کا پہلا ستارا کر جائے
قتیلؔ پی تو کیا ہے خوشی سے زہرِِ فراق
خدا کرے کہ طبیعت گوارا کر جائے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment