Tuesday 3 May 2016

بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے

بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دور ہیں گرداب ہم سے
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے
جہاں کچھ روز پہلے راندۂ دہلیز تھے ہم
انہی گلیوں سے اب ہم کو پکارا جا رہا ہے
محلے سے کرایہ دار کیا جانے لگے ہیں
کہ ان کے ساتھ گویا دل ہمارا جا رہا ہے
قدم زینے پہ رکھا اس نے اور ہم نے یہ سمجھا
کہ سُوئے آسماں کوئی ستارا جا رہا ہے
ہم اہلِ درد جُوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانِستہ ہر بازی میں ہارا جا رہا ہے
حسنؔ اب تو وہاں کچھ بھی نہیں جُز کِرچیوں کے
تُو کس آئینہ خانے میں دوبارا جا رہا ہے

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment