بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دور ہیں گرداب ہم سے
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے
جہاں کچھ روز پہلے راندۂ دہلیز تھے ہم
محلے سے کرایہ دار کیا جانے لگے ہیں
کہ ان کے ساتھ گویا دل ہمارا جا رہا ہے
قدم زینے پہ رکھا اس نے اور ہم نے یہ سمجھا
کہ سُوئے آسماں کوئی ستارا جا رہا ہے
ہم اہلِ درد جُوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانِستہ ہر بازی میں ہارا جا رہا ہے
حسنؔ اب تو وہاں کچھ بھی نہیں جُز کِرچیوں کے
تُو کس آئینہ خانے میں دوبارا جا رہا ہے
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment