Tuesday 3 May 2016

آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا

آنکھوں سے کُوئے یار کا منظر نہیں گیا
حالانکہ دس برس سے میں اس گھر نہیں گیا
اس نے مذاق میں کہا، میں روٹھ جاؤں گی
لیکن مِرے وجود سے یہ ڈر نہیں گیا
بچوں کے ساتھ آج اسے دیکھا تو دکھ ہوا
ان میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا
سانسیں ادھار لے کے گزاری ہے زندگی
حیران وہ بھی تھی کہ میں کیوں مر نہیں گیا
شامِ وداع لاکھ تسلی کے باوجود
آنکھوں سے اس کی دکھ کا سمندر نہیں گیا
کوشش کرو ضرور، مگر اتنا جان لو
اِس دل میں جو بھی آیا، وہ آ کر نہیں گیا
اترا نہ اس کے بعد کوئی اور آنکھ میں
معیارِ حسن، یار سے اوپر نہیں گیا
پیروں میں نقش ایک ہی دہلیز تھی حسنؔ
اس کے سوا میں اور کسی در نہیں گیا

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment