غم ایک رات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے
کہ اس کے جانے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
ہزار طرح کے روگ اس کے ساتھ آتے ہیں
یہ عشق، بے سر و سامان تھوڑی ہوتا ہے
تمہیں جو دیکھنے ہم آ گئے، تو حیرت کیوں
جس ایک حرفِ طلب پر دل آ کے جھکتے ہوں
وہ بادشاہ کا فرمان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دکھ تو چپکے سے آ بیٹھتے ہیں سینوں میں
کہ ان کے آنے کا اعلان تھوڑی ہوتا ہے
عذاب ہوتا ہے ان کے لیے، جو سوچتے ہیں
بُتانِ سنگ کو سرطان تھوڑی ہوتا ہے
رہِ وفا میں کہاں فاصلوں کو ماپتے ہیں
معیارِ عشق میں میزان تھوڑی ہوتا ہے
محبتیں تو فقط نقدِ جاں ہی مانگتی ہیں
یہاں پہ مال کا تاوان تھوڑی ہوتا ہے
کمال یہ ہے کہ میں نے بھُلا دیا اس کو
وگرنہ،۔ کام یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے
اسے تو مجنوں و فرہاد ہی سے نِسبت دو
یہ عشق، خسرو و خاقان تھوڑی ہوتا ہے
کچھ اہلِ زر، سرِ بازار آئے ہیں، لیکن
ضمیر، نیلم و مرجان تھوڑی ہوتا ہے
میں تار تار تو کر دوں حسنؔ زمانے کو
مگر یہ میرا گریبان تھوڑی ہوتا ہے
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment