Monday, 2 May 2016

شب میں دن کا بوجھ اٹھایا دن میں شب بیداری کی

شب میں دن کا بوجھ اٹھایا دن میں شب بیداری کی
دل پر دل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی
کشتی کو کشتی کہہ دینا ممکن تھا آسان نہ تھا
دریاؤں کی خاک اڑائی، ملاحوں سے یاری کی
کوئی حد، کوئی اندازہ، کب تک گرتے جانا ہے
خندق سے خاموشی گہری، اس سے گہری تاریکی
اک تصویر مکمل کر کے ان آنکھوں سے ڈرتا ہوں
فصلیں پک جانے پر جیسے دہشت اک چنگاری کی
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، نیند مکمل ہونے سے
آدھے جاگے آدھے سوئے غفلت بھر ہشیاری کی
ہم انصاف نہیں کر پائے، دنیا سے بھی، دل سے بھی
تیری جانب مڑ کر دیکھا، یعنی جانب داری کی
اپنے آپ کو گالی دے کر، گھور رہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں، پھر چابی الماری کی
گھٹتے بڑھتے سائے سے عادلؔ لطف اٹھایا سارا دن
آنگن کی دیوار پہ بیٹھے ہم نے خوب سواری کی

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment