شب میں دن کا بوجھ اٹھایا دن میں شب بیداری کی
دل پر دل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی
کشتی کو کشتی کہہ دینا ممکن تھا آسان نہ تھا
دریاؤں کی خاک اڑائی، ملاحوں سے یاری کی
کوئی حد، کوئی اندازہ، کب تک گرتے جانا ہے
اک تصویر مکمل کر کے ان آنکھوں سے ڈرتا ہوں
فصلیں پک جانے پر جیسے دہشت اک چنگاری کی
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، نیند مکمل ہونے سے
آدھے جاگے آدھے سوئے غفلت بھر ہشیاری کی
ہم انصاف نہیں کر پائے، دنیا سے بھی، دل سے بھی
تیری جانب مڑ کر دیکھا، یعنی جانب داری کی
اپنے آپ کو گالی دے کر، گھور رہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں، پھر چابی الماری کی
گھٹتے بڑھتے سائے سے عادلؔ لطف اٹھایا سارا دن
آنگن کی دیوار پہ بیٹھے ہم نے خوب سواری کی
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment