جنونِ عشق کی منزل وہی ہے
جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے
انہی مجبوریوں نے مار ڈالا
کہ تیری ہر خوشی میری خوشی ہے
ابھی ہے ان کے آنے کی توقع
مِری بربادیوں کا پوچھنا کیا
تِری نظروں کی قیمت بڑھ گئی ہے
جہاں ان کا سوال آیا ہے باقیؔ
وہاں اپنی کمی محسوس کی ہے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment