Tuesday, 6 September 2016

بکھرے تو پھر بہم مرے اجزا نہیں ہوئے

بکھرے تو پھر بہم مِرے اجزا نہیں ہوئے
سرزد اگرچہ معجزے کیا کیا نہیں ہوئے
جو راستے میں کھیت نہ سیراب کر سکے
کیوں جذب دشت ہی میں وہ دریا نہیں ہوئے
انسان ہے تو پاؤں میں لغزش ضرور ہے
جرمِ شکستِ جام بھی بے جا نہیں ہوئے
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے
انساں ہیں اب تو، مدتوں ہم دیوتا رہے
شکلیں نہیں بنیں جو ہیولیٰ نہیں ہوئے
ٹھہرو! ابھی یہ کھیل مکمل نہیں ہوا
جی بھر کے ہم تمہارا تماشا نہیں ہوئے
ہر سر سے آسمان کی چھت اٹھ نہیں گئی
کب تجربہ میں شہر یہ صحرا نہیں ہوئے
شوکتؔ دیارِ شوق کی رونق انہی سے ہے
جو اپنی ذات میں کبھی تنہا نہیں ہوئے

شوکت واسطی

1 comment: