Tuesday 25 October 2016

رخ اپنا ہم کو دکھلایا تو ہوتا

رُخ اپنا ہم کو دِکھلایا تو ہوتا
ذرا سورج کو شرمایا تو ہوتا
مِرے دل کا پتا ملتا انہیں میں
ذرا زُلفوں کو سلجھایا تو ہوتا
مجھی کو واعظا پند و نصیحت
کبھی اس کو بھی سمجھایا تو ہوتا
جو اپنا جان کر مارا، گِلہ کیا
مگر مرقد پہ تُو آیا تو ہوتا
سرِ سیخِ مژہ میں دل پِرو کر
کبابِ پُرنمک کھایا تو ہوتا
سمجھتے عشقِ پیچاں اس کو بلبل
کمر نے گُل کی بل کھایا تو ہوتا
تجھے کھُل جاتی اخترؔ سوزشِ عشق
کوئی گُل ہاتھ پر کھایا تو ہوتا

واجد علی شاہ اختر

No comments:

Post a Comment