Monday, 24 October 2016

دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطف بہار کیا

دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے، وہ دل کی فسردگی
اس گلشنِ جہاں کی خزاں کیا، بہار کیا
کس کے فسونِِ حسن کا دنیا طلسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا
دیکھا سرور بادۂ ہستی کا خاتمہ
اب دیکھیں رنگ لائے اجل کا خمار کیا
اب کے تو شامِ غم کی سیاہی کچھ اور ہے
منظور ہے تجھے مِرے پروردگار کیا
دنیا سے لے چلا ہے جو تُو حسرتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گناہوں کا بار کیا
جس کی، قفس میں آنکھ کھلی ہو مِری طرح
اس کے لئے چمن کی خزاں کیا، بہار کیا
کیسا ہوائے حِرص میں برباد ہے بشر
سمجھا ہے زندگی کو یہ مشتِ غبار کیا
خِلعت کفن کا ہم تو زمانے سے لے چکے
اب ہے عروسِ مرگ تجھے انتظار کیا
بعدِ فنا، فضول ہے نام و نشاں کی فکر
جب ہم نہیں رہے، تو رہے گا مزار کیا
اعمال کا طلسم ہے نیرنگِ زندگی
تقدیر کیا ہے، گردشِ لیل و نہار کیا
چلتی ہے اس چمن میں ہوا انقلاب کی
شبنم کو آئے دامنِ گل میں قرار کیا
تفسیرِ حالِ زار ہے بس اک نگاہِ یاس
ہو داستانِ درد کا، اور اختصار کیا
دونوں کو ایک خاک سے نشوونما مِلی
لیکن، ہوائے دہر سے گل کیا ہے، خار کیا
چھٹکی ہوئی ہے گورِغرِیباں پہ چاندنی
ہے بے کسوں کو فکرِ چراغِ مزار کیا
کچھ گل نہاں ہیں پردۂ خاکِ چمن میں بھی
تازہ کرے گی ان کو ہوائے بہار کیا
راحت طلب کو درد کی لذت نہیں نصیب
تلوؤں میں آبلے جو نہیں، لطفِ خار کیا
خاکِ وطن میں، دامنِ مادر کا چَین ہے
تنگی کنار کی، ہے لحد کا فشار کیا
انساں کے بغضِ جہل سے دنیا تباہ ہے
طوفاں اٹھا رہا ہے یہ، مشتِ غبار کیا

چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)

No comments:

Post a Comment