دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل، وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے، چمن کوئی بھی ہو
صورتِ حالات ہی پر بات کرنی ہے اگر
پھر مخاطب ہو کوئی بھی، انجمن کوئی بھی ہو
ہے وہی لا حاصلی دستِ ہنر کی منتظر
شاعری میں آج بھی ملتا ہے ناصر کا نشاں
ڈھونڈتے ہیں ہم اسے، بزمِ سخن کوئی بھی ہو
عادتیں اور حاجتیں باصرؔ بدلتی ہیں کہاں
رقص بِن رہتا نہیں طاؤس، بَن کوئی بھی ہو
باصر کاظمی
No comments:
Post a Comment