سمندر کی طرف بہتا ملا ہے
جو دریا بھی ملا پیاسا ملا ہے
کوئی دیکھے مِری معراجِ وحشت
مجھے دریا میں بھی صحرا ملا ہے
خضرؑ کی رہنمائی میں چلا تھا
کبھی ہم لوگ رستے سے ملے ہیں
کبھی آ کر ہمیں رستہ ملا ہے
سکوں پرور مدینے کی فضائیں
یہاں تو وقت بھی ٹھہرا ملا ہے
اگر پایاب تھے ہم لوگ خاورؔ
تو دل کا زخم کیوں گہرا ملا ہے
خاور زیدی
No comments:
Post a Comment