Thursday 27 October 2016

سمندر کی طرف بہتا ملا ہے

سمندر کی طرف بہتا ملا ہے
جو دریا بھی ملا پیاسا ملا ہے
کوئی دیکھے مِری معراجِ وحشت
مجھے دریا میں بھی صحرا ملا ہے
خضرؑ کی رہنمائی میں چلا تھا
یہی جو راہ میں بھٹکا ملا ہے
کبھی ہم لوگ رستے سے ملے ہیں
کبھی آ کر ہمیں رستہ ملا ہے
سکوں پرور مدینے کی فضائیں
یہاں تو وقت بھی ٹھہرا ملا ہے
اگر پایاب تھے ہم لوگ خاورؔ
تو دل کا زخم کیوں گہرا ملا ہے

خاور زیدی

No comments:

Post a Comment