مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں
گرا دیتے ہیں دیواریں، تو پتھر چھوڑ جاتے ہیں
یہ کمسن پھول سے چہرے زمیں کی گود میں سو کر
گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں
سُبک رفتار لمحے پھر کبھی واپس نہیں آتے
یہ کیسا علم ہے، جس کے پجاری تجربے کر کے
کسانوں کے لیے دھرتی کو بنجر چھوڑ جاتے ہیں
شکستہ دل فقط کچھ سانس گِن کر ہسپتالوں میں
نئے لوگوں کی خاطر اپنے بستر چھوڑ جاتے ہیں
سگانِ برزنِ قریہ بھی ڈر سے کانپ اٹھتے ہیں
صباؔ جو وحشتیں انساں گھر گھر چھوڑ جاتے ہیں
سبط علی صبا
No comments:
Post a Comment