Wednesday 26 October 2016

دل کی دل کو خبر نہیں ملتی

دل کی دل کو خبر نہیں مِلتی
جب نظر سے نظر نہیں ملتی
سحر آئ ہے دن کی دھوپ لیے
اب، نسیمِ سحر نہیں ملتی
دلِ معصوم کی وہ پہلی چوٹ
دوستوں سے نظر نہیں ملتی
جتنے لب اتنے اسکے افسانے
خبرِ معتبر نہیں ملتی
ہے مقامِ جنوں سے ہوش کی رہ
سب کو یہ رہگزر نہیں ملتی
نہیں ملاؔ پہ اس فغاں کا اثر
جس میں آہِ بشر نہیں ملتی

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment