Sunday, 30 October 2016

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم 
دل لے کے سرِ عرصۂ غم آ تو گئے ہم 
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا 
رودادِ وفا، دار پہ دہرا تو گئے ہم 
کہتے تھے جو اب کوئ جاں سے نہیں گزرتا 
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم 
جاں اپنی گنوا کر، کبھی گھر اپنا جلا کر 
دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم 
اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ 
لوگوں کو سرِ دار نظر آ تو گئے ہم 

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment