Friday 28 October 2016

ہم کہ جو ایک آدم کی اولاد ہیں

ایک آدمؑ کی اولاد

ہم کہ جو ایک آدمؑ کی اولاد ہیں
ایک دھرتی پہ، ایک آسماں کے تلے، سانس لیتے ہیں جو
بے لباسی کے ملبوس میں آنکھ کھلتی ہے سب کی
اور دو گز زمیں میں، اسی جامۂ اصلی میں لوٹ جاتے ہیں سب
دھوپ، بارش، ہوا، روشنی کی سبھی نعمتیں
سب پہ ارزاں ہیں یکساں
فتوحات جتنی بھی ہم زندگانی میں حاصل کریں
کوچ کا وقت آئے تو ٹلتا نہیں
رنگ محرومیوں کا بدلتا نہیں
تو پھر ایک محدود طبقے کا عیش و طرب پر اجارہ ہے کیوں؟
باقی مخلوق یوں بے سہارا ہے کیوں؟
زندگی کی سب آسائشوں کا چلن، چند ہاتھوں میں کیوں ہے؟
یہ تفریق رشتوں میں، ناتوں میں، ذاتوں میں کیوں ہیں؟
تغافر کا یہ غلغلہ، ان کی باتوں میں کیوں ہے؟
غریبوں پہ یہ زندگی کی قبا تنگ کب تک رہے گی؟
یہ نسلوں میں، رنگوں میں، تفریق کی جنگ کب تک رہے گی؟
سماجی وڈیروں کے ہاتھوں
فضا میری دنیا کی بے رنگ کب تک رہے گی؟

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment