Tuesday, 25 October 2016

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں 
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قیدِ مقام کہاں
بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام 
بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دلِ ناکام! کہاں
اب وہ حسرت رسوا بن کر جزوِ حیات ہے برسوں سے 
جس سے وحشت کرتے تھے تم اب وہ خیالِ خام کہاں
زیست کی رہ میں اب ہم بے حس تنہا سر بہ گریباں ہیں 
کچھ آلام کا ساتھ ہوا تھا، وہ بھی نافرجام کہاں
کرنی کرتے راہیں تکتے ہم نے عمر گنوائی ہے 
خوبی قسمت ڈھونڈ کے ہاری ہم ایسے ناکام کہاں
اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے 
جن داموں یہ دنیا ملتی،۔۔ اتنے ہمارے دام کہاں

مختار صدیقی

No comments:

Post a Comment