رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قیدِ مقام کہاں
بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام
بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دلِ ناکام! کہاں
اب وہ حسرت رسوا بن کر جزوِ حیات ہے برسوں سے
زیست کی رہ میں اب ہم بے حس تنہا سر بہ گریباں ہیں
کچھ آلام کا ساتھ ہوا تھا، وہ بھی نافرجام کہاں
کرنی کرتے راہیں تکتے ہم نے عمر گنوائی ہے
خوبی قسمت ڈھونڈ کے ہاری ہم ایسے ناکام کہاں
اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے
جن داموں یہ دنیا ملتی،۔۔ اتنے ہمارے دام کہاں
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment