Thursday, 27 October 2016

سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا اور ہوا چل پڑی

سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا، اور ہوا چل پڑی
پھر سے رنگِ فضا معتدل ہو گیا، حبس حد سے بڑھا، اور ہوا چل پڑی
پار اترنے کے پختہ ارادے مِرے، لے گئے سمتِ ساحل اڑا کر مجھے
نرم رو موجِ دریا پہ تیرا ہی تھا میرا کچا گھڑا، اور ہوا چل پڑی
اپنے گھوڑوں کی اڑتی ہوئی دھول نے میرے دشمن کے لشکر کو اندھا کیا
ہم پیادوں کا یوں ہی بھرم رہ گیا، پہلا دستہ لڑا، اور ہوا چل پڑی
شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے، پھر بھی موسم کے تیور بدلتے نہیں
یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے، صرف کلمہ پڑھا، اور ہوا چل پڑی

رؤف امیر

No comments:

Post a Comment