سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا، اور ہوا چل پڑی
پھر سے رنگِ فضا معتدل ہو گیا، حبس حد سے بڑھا، اور ہوا چل پڑی
پار اترنے کے پختہ ارادے مِرے، لے گئے سمتِ ساحل اڑا کر مجھے
نرم رو موجِ دریا پہ تیرا ہی تھا میرا کچا گھڑا، اور ہوا چل پڑی
اپنے گھوڑوں کی اڑتی ہوئی دھول نے میرے دشمن کے لشکر کو اندھا کیا
شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے، پھر بھی موسم کے تیور بدلتے نہیں
یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے، صرف کلمہ پڑھا، اور ہوا چل پڑی
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment