Monday 31 October 2016

آئینہ گر کے دکھ پتھرہی رہو شیشہ نہ بنو

آئینہ گر کے دُکھ

پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو
شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں
اس شہرمیں خالی چہروں پر
آنکھیں تو ابھرآئی ہیں مگر
آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں
خاموش رہو، آواز نہ دو
کانوں میں سماعت سوتی ہے
سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو
احساس کو زحمت ہوتی ہے
اظہارِ حقیقت کے لہجے
سننے کا ابھی دستور نہیں
الفاظ و معانی کے رشتے
ذہنوں کو ابھی منظور نہیں
یہ شہر کسی کا شہر ہے کب
یہ لوگ نہیں ہیں سائے ہیں
ان سایوں میں کوئی مہر ہے کب
یہ پیاس بڑھانے آئے ہیں
اشکوں سے کہو جم جائیں وہیں
جس چشمۂ غم سے پھوٹے ہیں
آہوں سے کہو تھم جائیں وہیں
یہ جذبے شاید جھوٹے ہیں
مت ہاتھ بڑھاؤ چاہت کا
انجان بنو، انجان رہو
یہ رسم گراں ہے لوگوں پر
مشکل نہ بنو، آسان رہو
جو بھول چکے ہو مدت سے
اس درد کو پھر آغاز نہ دو
جانے دو انہیں، آوازنہ دو
آواز نہ دو، آواز نہ دو

ظہیر احمد

No comments:

Post a Comment