اک نئے درد کا امکان بھی ہو سکتا ہے
دل تو خوشیوں سے پریشان بھی ہو سکتا ہے
ایک ہی ہاتھ میں پتھر بھی ہے آئینہ بھی
اس تعلق میں تو نقصان بھی ہو سکتا ہے
یہ جو اک اشک لرزتا ہے مِری پلکوں پر
دل سے کچھ ٹوٹتے رہنے کی صدا آتی ہے
جانِ من! یہ تیرا پیمان بھی ہو سکتا ہے
گھر کے دروازے پر دستک سی ہوئی ہے
یہ ہوا ہی نہیں، مہمان بھی ہو سکتا ہے
محسن چنگیزی
No comments:
Post a Comment