Thursday 27 October 2016

چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے

چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے 
بچے کا سبھی شور کھلونے کے لیے ہے
دیتا ہے شب و روز مجھے ایک ہی احساس
جو کچھ ہے مِرے پاس وہ کھونے کے لیے ہے
دل تیرے تصور میں تڑپنے پہ ہے مامور
اور آنکھ غمِ ہجر میں رونے کے لیے ہے
معلوم ہوا ناؤ کی ایجاد کا مفہوم 
یہ چیز مسافر کو ڈبونے کے لیے ہے
ہم جس کی محبت میں ہیں اس شہر کے پابند
وہ اور کسی شہر کا ہونے کے لیے ہے

رؤف امیر

No comments:

Post a Comment