چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے
بچے کا سبھی شور کھلونے کے لیے ہے
دیتا ہے شب و روز مجھے ایک ہی احساس
جو کچھ ہے مِرے پاس وہ کھونے کے لیے ہے
دل تیرے تصور میں تڑپنے پہ ہے مامور
معلوم ہوا ناؤ کی ایجاد کا مفہوم
یہ چیز مسافر کو ڈبونے کے لیے ہے
ہم جس کی محبت میں ہیں اس شہر کے پابند
وہ اور کسی شہر کا ہونے کے لیے ہے
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment