Tuesday 25 October 2016

کیا غم جاں اور کیا غم جاناں سب کے محرم راز ہوئے

کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے
اب مجبورِ نوا بھی نہیں ہیں، اب تو پردۂ ساز ہوئے
خوئے فراق ہی آڑے آئی آخر ہم مجبوروں کے
میل ملاپ پہ قادر جب سے آپ ایسے دم باز ہوئے
لازم ہے درویش کی خاطر پردہ دنیا داری کا
ورنہ ہم تو فقیر ہیں جب سے یار زمانہ ساز ہوئے
شعر و سخن، سامانِ جنوں کیا، کوہکنی درویشی کیا
قیدِ حیات میں درد کے مارے رہے تو حیلہ ساز ہوئے
آج غزل کی صورت میں جو آپ کے سامنے آئے ہوئے
کن جتنوں سے یہ خون کے قطرے اب تک پس انداز ہوئے

مختار صدیقی

No comments:

Post a Comment