کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے
اب مجبورِ نوا بھی نہیں ہیں، اب تو پردۂ ساز ہوئے
خوئے فراق ہی آڑے آئی آخر ہم مجبوروں کے
میل ملاپ پہ قادر جب سے آپ ایسے دم باز ہوئے
لازم ہے درویش کی خاطر پردہ دنیا داری کا
شعر و سخن، سامانِ جنوں کیا، کوہکنی درویشی کیا
قیدِ حیات میں درد کے مارے رہے تو حیلہ ساز ہوئے
آج غزل کی صورت میں جو آپ کے سامنے آئے ہوئے
کن جتنوں سے یہ خون کے قطرے اب تک پس انداز ہوئے
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment