خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار
اُس کے گھر تک پہنچ گئی دیوار
پوچھتے ہو کہ اَن کہی کیا ہے
تم نے دیکھی نہیں کبھی دیوار
تُو نہیں ہے تو اب تِری تصویر
اپنی قسمت پہ ناز کرتی ہے
اس کی دیوار سے ملی دیوار
بات ایسی کوئی تو ہے اس میں
اس کو چھُو کے چمک اٹھی دیوار
کوئی تھامے کھڑا ہے مدت سے
خامشی سے بھری ہوئی دیوار
آتا جاتا تھا زینہ چھت پر اور
اس کو حسرت سے دیکھتی دیوار
در بنایا گیا تھا اس کے لئے
اور در کے لئے بنی دیوار
کون آیا اجاڑ آنگن میں
جی اٹھی ہے گری پڑی دیوار
آنے والا ہے کیا کوئی مہماں؟
میں نے پوچھا تو ہنس پڑی دیوار
کوئی سنتا ہے انہماک سے کب
بات کرتی ہے جب کبھی دیوار
جانے کس کی ہے منتظر خورشیدؔ
یہ دریچوں سے جھانکتی دیوار
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment