Tuesday 25 October 2016

وقت کی چادر کے چھیدوں کو

وقت کی چادر کے چھیدوں کو
اپنی سانسوں کے دھاگے سے سِینے میں
پورے چھ دن لگ جاتے ہیں
کبھی کبھی انگلی میں چُبھ جاتی ہے
عمر کی سوئی تو خوں بہتا ہے
آخری دن مرہم پٹی میں کٹ جاتا ہے
خود سے ملنے
یا پھر تیری یاد کے کاندھے پر سر رکھ کر
تھوڑی دیر کو
بچے کچھے خوابوں میں کھونے کی مہلت کب ملتی ہے
چھٹی کے دن بھی دنیا سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے

محسن چنگیزی

No comments:

Post a Comment