Monday, 31 October 2016

دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے

دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے
خود میں غم گھول رہا ہو جیسے
اب وہ یوں دیکھ رہا ہے مجھ کو 
ظرف کو تول رہا ہو جیسے
گھِر کے پھر آ گئے کالے بادل 
زلف وہ کھول رہا ہو جیسے
یوں جھجک جاتا ہوں کہہ کے ہر بات
بات میں جھول رہا ہو جیسے
دل کو اب مفت لیے پھرتا ہوں
پہلے انمول رہا ہو جیسے
بات یوں کرنے لگا ہے نوریؔ
آئینہ بول رہا ہو جیسے

کرار نوری 

No comments:

Post a Comment