دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے
خود میں غم گھول رہا ہو جیسے
اب وہ یوں دیکھ رہا ہے مجھ کو
ظرف کو تول رہا ہو جیسے
گھِر کے پھر آ گئے کالے بادل
یوں جھجک جاتا ہوں کہہ کے ہر بات
بات میں جھول رہا ہو جیسے
دل کو اب مفت لیے پھرتا ہوں
پہلے انمول رہا ہو جیسے
بات یوں کرنے لگا ہے نوریؔ
آئینہ بول رہا ہو جیسے
کرار نوری
No comments:
Post a Comment