زخمِ دل ہے تو مندمل کیا ہو
اور زخمی نہ ہو تو دل کیا ہو
جو سراپا ہو سنگِ مرمر کا
وہ اگر ہو نہ سنگ دل، کیا ہو
ہِجر لاحق ہو جس کو صدیوں سے
وقت مجھ کو بھی پھر ملے نہ ملے
اور پھر تُو بھی مل نہ مل، کیا ہو
تیرے در سے ملے جو رسوائی
اس پہ خاورؔ تِرا خجل کیا ہو
خاور احمد
No comments:
Post a Comment