Thursday 27 October 2016

زخم دل ہے تو مندمل کیا ہو

زخمِ دل ہے تو مندمل کیا ہو
اور زخمی نہ ہو تو دل کیا ہو
جو سراپا ہو سنگِ مرمر کا
وہ اگر ہو نہ سنگ دل، کیا ہو
ہِجر لاحق ہو جس کو صدیوں سے
اس کو سرطان کیا ہو، سِل کیا ہو
وقت مجھ کو بھی پھر ملے نہ ملے
اور پھر تُو بھی مل نہ مل، کیا ہو
تیرے در سے ملے جو رسوائی
اس پہ خاورؔ تِرا خجل کیا ہو

خاور احمد

No comments:

Post a Comment