بِیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی
وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی
جیسے، کوئی پکار رہا ہو کہیں مجھے
یہ آدھی رات کس کی صدا یاد آ گئی
تازہ تھا زخمِ ہجر تو تدبیر کچھ نہ کی
وہ شکل دور رہ کے بھی ہے کتنی مہرباں
جب دل نے اس کو یاد کِیا، یاد آ گئی
باصرؔ کسی سے عہد وفا کر رہے تھے آج
ناگاہ پھر کسی کی وفا یاد آ گئی
باصر کاظمی
No comments:
Post a Comment