Thursday 20 October 2016

بیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی

بِیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی 
وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی 
جیسے، کوئی پکار رہا ہو کہیں مجھے 
یہ آدھی رات کس کی صدا یاد آ گئی 
تازہ تھا زخمِ ہجر تو تدبیر کچھ نہ کی
اب لا علاج ہے تو دوا یاد آ گئی
وہ شکل دور رہ کے بھی ہے کتنی مہرباں 
جب دل نے اس کو یاد کِیا، یاد آ گئی 
باصرؔ کسی سے عہد وفا کر رہے تھے آج 
ناگاہ پھر کسی کی وفا یاد آ گئی 

باصر کاظمی

No comments:

Post a Comment