جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر
سائے کو دھوپ میں پھیلا لے نہ ہرجائی کر
فکر کو ذہن کی دیوار پہ تصویر بنا
آنکھ کو مدح سرا، دل کو تماشائی کر
ہیں تِری ذات میں بھی بوکلموں ہنگامے
شہر در شہر تِرا نام نکلتا جائے
اے ستمگر مِری آنکھیں بھی کھول کے رسوائی کر
عین ممکن ہے کہ ہو جائے یہی سجدہ قبول
اپنی دہلیز پہ اب ناصیہ فرسائی کر
مرنے والوں کو جلانے کا تکلف کیا ہے
جیتے جی مر گئے جو ان کی مسیحائی کر
شوکتؔ اب آنسوؤں میں بھیگ رہی ہے آواز
درد بہنے لگا ہے،۔۔۔ زمزمہ آرائی کر
شوکت واسطی
No comments:
Post a Comment