Thursday 20 October 2016

جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر

جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر
سائے کو دھوپ میں پھیلا لے نہ ہرجائی کر
فکر کو ذہن کی دیوار پہ تصویر بنا
آنکھ کو مدح سرا، دل کو تماشائی کر
ہیں تِری ذات میں بھی بوکلموں ہنگامے
تُو اسے صرف تماشا گہِ تنہائی کر
شہر در شہر تِرا نام نکلتا جائے
اے ستمگر مِری آنکھیں بھی کھول کے رسوائی کر
عین ممکن ہے کہ ہو جائے یہی سجدہ قبول
اپنی دہلیز پہ اب ناصیہ فرسائی کر
مرنے والوں کو جلانے کا تکلف کیا ہے
جیتے جی مر گئے جو ان کی مسیحائی کر
شوکتؔ اب آنسوؤں میں بھیگ رہی ہے آواز
درد بہنے لگا ہے،۔۔۔ زمزمہ آرائی کر

شوکت واسطی

No comments:

Post a Comment