سرِ محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تُو نے روکا بھی تھا مجرم کی خطا سے پہلے
اشک آنکھوں میں ہیں، ہونٹوں پہ بُکا سے پہلے
قافلہ غم کا چلا،۔ بانگِ درا سے پہلے
اڑ گیا جیسے یکایک میرے شانوں پر سے
ہاں یہاں دل جو کسی کا ہے اب آئینۂ حسن
ورقِ سادہ تھا الفت کی ضیا سے پہلے
میں گِرا خاک پہ لیکن کبھی تم نے پوچھا
مجھ پہ کیا بِیت گئی لغزشِ پا سے پہلے
اشک آتے تو تھے لیکن یہ چمک اور تڑپ
ان میں کب تھی غمِ الفت کی ضیا سے پہلے
درِ مۓ خانہ سے آتی ہے صدائے ساقی
آج سیراب کئے جائیں گے پیاسے پہلے
رازِ مۓ نوشئ ملاؔ افشا ہُوا، ورنہ
سمجھا جاتا تھا ولی اس خطا سے پہلے
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment