اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
ان تک گئی جو آگ،۔ بجھانے لگے مجھے
آنکھوں میں جب تلک رہے کتنا غریب تھا
آیا یہ کیسا خول چڑھا کر ستم ظریف
اندر کے داغ بھی نظر آنے لگے مجھے
سچائیوں کا زہر میں پینے چلا تو ہوں
یہ زہر پی کے نیند نہ آنے لگے مجھے
ٹپکا لہو تو ظلم کی تصویر بن گئی
ظالم اسے پلٹ کے دکھانے لگے مجھے
اونچا ہو میرا سر یہ کوئی چاہتا نہ تھا
سُولی پہ بھی چڑھا تو گِرانے لگے مجھے
مانگے ہوئے حریر و جواہر کی سیج پر
سونے لگا تو پاؤں سرہانے لگے مجھے
مجھ سے ملے بغیر مظفرؔ جو تھے خفا
میں ان سے مل لیا تو منانے لگے مجھے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment