Sunday 30 October 2016

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
ان تک گئی جو آگ،۔ بجھانے لگے مجھے
آنکھوں میں جب تلک رہے کتنا غریب تھا
آنسو لٹا دئیے تو خزانے لگے مجھے
آیا یہ کیسا خول چڑھا کر ستم ظریف
اندر کے داغ بھی نظر آنے لگے مجھے
سچائیوں کا زہر میں پینے چلا تو ہوں
یہ زہر پی کے نیند نہ آنے لگے مجھے
ٹپکا لہو تو ظلم کی تصویر بن گئی
ظالم اسے پلٹ کے دکھانے لگے مجھے
اونچا ہو میرا سر یہ کوئی چاہتا نہ تھا
سُولی پہ بھی چڑھا تو گِرانے لگے مجھے
مانگے ہوئے حریر و جواہر کی سیج پر
سونے لگا تو پاؤں سرہانے لگے مجھے
مجھ سے ملے بغیر مظفرؔ جو تھے خفا
میں ان سے مل لیا تو منانے لگے مجھے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment