تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا، مگر اتنا نہیں تھا
تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرے میں آئینہ نہیں تھا
سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
منانے روٹھنے کے کھیل میں ہم
بچھڑ جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا
سنا ہے بند کر لیں اس نے آنکھیں
کئی راتوں سے وہ سویا نہیں تھا
معراج فیض آبادی
No comments:
Post a Comment