سفر، زادِ سفر اور ہم سفر تبدیل کر کے
بہت پچھتا رہا ہوں رہگزر تبدیل کر کے
تيری خواہش ہے اب کے اور نہ تيری آرزو ہے
پرندے جا چکے ہیں يہ شجر تبدیل کر کے
سو لازم ہے غلط فہمی دلوں ميں اور بڑھ جائے
بہت جلدی بنا تکرار کے پچھتا رہا ہوں
کسی کی رات ہے، اپنی سحر تبدیل کر کے
مجھے پہچان کر ترسا دیا ہے اس سخی نے
میرا چہرہ تو لوٹايا،۔ مگر تبدیل کر کے
بدل جاتے ہیں نيزہ تھامنے والے مگر محسنؔ
نہ بدلی جائے گی تاریخ سر تبدیل کر کے
محسن چنگیزی
No comments:
Post a Comment