Tuesday 25 October 2016

پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا

پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا
زخمِ دیرینہ سے پھر خون ہی ٹپکا ہو گا
بِیتی باتوں کے وہ ناسُور ہرے پھر ہوں گے
بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہو گا
یورشیں کر کے اُمڈ آئیں گی سُونی شامیں
لاکھ بھٹکیں کسی عنوان نہ سویرا ہو گا
جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے
پھر کوئی لاکھ سنبھالے نہ سنبھلنا ہو گا
کیسی رُت آئی ہوا چلتی ہے جی ڈولتا ہے
اب تو ہنسنا بھی تڑپنے کا بہانا ہو گا
دل دھڑکنے کی صدا آئے گی سُونے پن میں
دور بادل کہیں پربت پہ گرجتا ہو گا

مختار صدیقی

No comments:

Post a Comment