پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا
زخمِ دیرینہ سے پھر خون ہی ٹپکا ہو گا
بِیتی باتوں کے وہ ناسُور ہرے پھر ہوں گے
بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہو گا
یورشیں کر کے اُمڈ آئیں گی سُونی شامیں
جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے
پھر کوئی لاکھ سنبھالے نہ سنبھلنا ہو گا
کیسی رُت آئی ہوا چلتی ہے جی ڈولتا ہے
اب تو ہنسنا بھی تڑپنے کا بہانا ہو گا
دل دھڑکنے کی صدا آئے گی سُونے پن میں
دور بادل کہیں پربت پہ گرجتا ہو گا
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment