سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی
چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی
کسی کے ناز پہ افسردہ خاطری دل کی
ہنسی کی بات ہے پھر بھی ہنسی نہیں آتی
نہ پوچھ ہیّت طرف و چمن کہ ایسی بھی
ہجوم عیش تو ان تیرہ بستیوں میں کہاں
کہیں سے آہ کی آواز بھی نہیں آتی
جدائیوں سے شکایت تو ہو بھی سکتی ہے
رفاقتوں سے وفا میں کمی نہیں آتی
کچھ ایسا محو ہے اسباب رنج و عیش میں دل
کہ عیش و رنج کی پہچان ہی نہیں آتی
سزا یہ ہے کہ رہیں چشمِ لطف سے محروم
خطا یہ ہے کہ ہوس پیشگی نہیں آتی
خدا رکھے تِری محفل کی رونقیں آباد
نظارگی سے نظر میں کمی نہیں آتی
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
شان الحق حقی
No comments:
Post a Comment