ہاں ساقی! پھر آنکھ ملانا، رات گزرنے والی ہے
جانے کب پلٹے یہ زمانا، رات گزرنے والی ہے
اب کچھ سننا ہے نہ سنانا، رات گزرنے والی ہے
ختم ہے اب بے کہے فسانا، رات گزرنے والی ہے
جلدی کیا ہے برقِ تبسم! دھواں بنے گا خود آنسو
اب تو تاریکی میں ہمدم،۔ غم کا ترانا چھیڑ دیا
اب ہنگامِ سحر سمجھانا، رات گزرنے والی ہے
طشتِ طلائ میں سورج کے ایک اک اشک پرکھ لینا
وقتِ سحر الزام لگانا، رات گزرنے والی ہے
رہ نہیں سکتے مجرم آنسو، قید حبابی شیشوں میں
وقت پہ چھلکے گا پیمانا، رات گزرنے والی ہے
چھٹ جاۓ گی تاریکی جب دھوپ سنہری نکلے گی
کروٹ لے کے رہے گا زمانا، رات گزرنے والی ہے
بادهٔ دوشیں کا پیمانا، ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گیا
چھیڑ کے ساغرِ نو کا فسانا، رات گزرنے والی ہے
زندہ خون کے آنسو ہیں یہ، تھوڑی دیر تڑپنے دے
وقتِ سحر مٹی میں ملانا، رات گزرنے والی ہے
شبنم سے پھولوں کے کٹورے خالی ہو جائیں گے سراجؔ
اشکوں سے بھر لو پیمانا، رات گزرنے والی ہے
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment