کسے ہے لوح وقت پر دوام سوچتے رہے
لکھے ہوئے تھے کیسے کیسے نام سوچتے رہے
رہِ حیات میں رکا ہے کون کتنی دیر کو
مسافروں کا وقفۂ قیام سوچتے رہے
کسے خبر ہے جلوہ گاہِ یار تک پہنچنے کو
سیاہ کتنے پڑتے ہیں مقام سوچتے رہے
اجڑ کے دل بسا نہیں، بچھڑ کے وہ ملا نہیں
عذاب ہے کہ ہجر صبح و شام سوچتے رہے
ابھی تلک بشارتوں کی گونج ہے خیال میں
یہ کون خواب میں تھا ہمکلام سوچتے رہے
جو ملا تھا راستے میں کیا بتائیں کون تھا
وہ یاد آ گیا تو اس کا نام سوچتے رہے
رشید ساری عمر اسی خیال میں گزر گئی
کہ ظالموں سے لیں گے انتقام سوچتے رہے
رشید کامل
No comments:
Post a Comment