Thursday, 27 October 2016

اسی لئے نہیں مانوس کائنات سے میں

اسی لیے نہیں مانوس کائنات سے میں
ہر ایک لمحہ بچھڑتا ہوں اپنی ذات سے میں
مِرے غروب کا ماتم نہ کر میں زندہ ہوں 
کہ مجھ سے رات پِنپتی ہے اور رات سے میں
ابھی تو سانس کے زِنداں سے آ رہی ہے صدا 
تھکا نہیں ہوں ابھی شرحِ حادثات سے میں
تم اپنے ہاتھ سے بازو مِرے کُچل ڈالو 
مصالحت میں نہ لوٹوں کسی فرات سے میں
وہ مجھ کو ہارتا دیکھے تو جینے لگتا ہے 
لپک کے خود ہی لپٹ جاؤں شاہِ مات سے میں
وہ پیار میں بھی بہت زاویے بدلتا ہے 
الجھ الجھ سا گیا اس کی بات بات سے میں
ہر ایک سوچ میں مجبوریوں کے رستے ہیں
نکل کے جاؤں کہاں تیری شش جہات سے میں

اختر امام رضوی

No comments:

Post a Comment