اسی لیے نہیں مانوس کائنات سے میں
ہر ایک لمحہ بچھڑتا ہوں اپنی ذات سے میں
مِرے غروب کا ماتم نہ کر میں زندہ ہوں
کہ مجھ سے رات پِنپتی ہے اور رات سے میں
ابھی تو سانس کے زِنداں سے آ رہی ہے صدا
تم اپنے ہاتھ سے بازو مِرے کُچل ڈالو
مصالحت میں نہ لوٹوں کسی فرات سے میں
وہ مجھ کو ہارتا دیکھے تو جینے لگتا ہے
لپک کے خود ہی لپٹ جاؤں شاہِ مات سے میں
وہ پیار میں بھی بہت زاویے بدلتا ہے
الجھ الجھ سا گیا اس کی بات بات سے میں
ہر ایک سوچ میں مجبوریوں کے رستے ہیں
نکل کے جاؤں کہاں تیری شش جہات سے میں
اختر امام رضوی
No comments:
Post a Comment