Tuesday 25 October 2016

یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے

یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے 
اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے 
سیاہ گیسو کو شانوں پہ ڈال رکھا ہے
بلا کا سانپ سپیرے نے پال رکھا ہے
مجھے تو حشر کے وعدے پہ ٹال رکھا ہے
اجل کا نام بدل کر وصال رکھا ہے  
یہ دن کے دوش پہ بکھری ہیں شام کی زلفیں
کہ اک مچھیرے کے کاندھے پہ جال رکھا ہے 
زمانہ دیتا ہے مجھ کو زوال کی دھمکی 
نہ جانے کون سا مجھ میں کمال رکھا ہے
نذیرؔ مر کے چکانا پڑے گا قرضِ حیات
نہیں گر آج تو کل انتقال رکھا ہے 

نذیر بنارسی

No comments:

Post a Comment