یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے
اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے
سیاہ گیسو کو شانوں پہ ڈال رکھا ہے
بلا کا سانپ سپیرے نے پال رکھا ہے
مجھے تو حشر کے وعدے پہ ٹال رکھا ہے
یہ دن کے دوش پہ بکھری ہیں شام کی زلفیں
کہ اک مچھیرے کے کاندھے پہ جال رکھا ہے
زمانہ دیتا ہے مجھ کو زوال کی دھمکی
نہ جانے کون سا مجھ میں کمال رکھا ہے
نذیرؔ مر کے چکانا پڑے گا قرضِ حیات
نہیں گر آج تو کل انتقال رکھا ہے
نذیر بنارسی
No comments:
Post a Comment