اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے
شب کو آ کر مِرے آغوش میں سو جاتی ہے
یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے
صبح کا ذکر نہیں، صبح تو ہو جاتی ہے
رشتۂ جاں کو سنبھالے ہوں کہ اکثر تِری یاد
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
آنکھ تو صرف تماشوں ہی میں کھو جاتی ہے
کب مجھے دعویِٰ عصمت ہے مگر یاد اس کی
جب بھی آ جاتی ہے دامن مِرا دھو جاتی ہے
کر چکا جشنِ بہاراں سے میں توبہ حقیؔ
فصلِ گل آ کے مِری جان کو رو جاتی ہے
شان الحق حقی
No comments:
Post a Comment