Friday 28 October 2016

دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے

دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے
ہم تم سے پیار کر کے گنہ گار ہو گئے
پھیلے تو سب جہاں کو ملی ہم سے روشنی 
سمٹے تو تیرا سایۂ دیوار ہو گئے
اک سازِ بے صدا کی طرح ہم خموش تھے
گویا ہوئے تو شعلۂ اظہار ہو گئے
تیرِ قضا سے بچ نہ سکے جب کسی طرح
ہم تن کے اس کے سامنے کہسار ہو گئے
پھوٹی جو اس بدن سے محبت کی چاندنی
پتھر پگھل کے نور کا مینار ہو گئے
منزل قریب آئی تو یہ حادثہ ہوا
فارغؔ ہم اپنی راہ میں دیوار ہو گئے

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment