دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے
ہم تم سے پیار کر کے گنہ گار ہو گئے
پھیلے تو سب جہاں کو ملی ہم سے روشنی
سمٹے تو تیرا سایۂ دیوار ہو گئے
اک سازِ بے صدا کی طرح ہم خموش تھے
تیرِ قضا سے بچ نہ سکے جب کسی طرح
ہم تن کے اس کے سامنے کہسار ہو گئے
پھوٹی جو اس بدن سے محبت کی چاندنی
پتھر پگھل کے نور کا مینار ہو گئے
منزل قریب آئی تو یہ حادثہ ہوا
فارغؔ ہم اپنی راہ میں دیوار ہو گئے
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment