Sunday 30 October 2016

اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے

اب کیا سوچیں کیا حالات تھے، کس کارن یہ زہر پیا ہے
ہم نے اس کے شہر کو چھوڑا اور آنکھوں کو مُوند لیا ہے
اپنا یہ شیوہ تو نہیں تھا،۔۔۔ اپنے غم اوروں کو سونپیں
خود تو جاگتے یا سوتے ہیں اس کو کیوں بے خواب کیا ہے
خلقت کے آوازے بھی تھے بند اس کے دروازے بھی تھے
پھر بھی اس کوچے سے گزرے پھر بھی اس کا نام لیا ہے
ہجر کی رُت جاں لیوا تھی،۔۔ پر غلط سبھی اندازے نکلے
تازہ رفاقت کے موسم تک میں بھی جیا ہوں وہ بھی جیا ہے
اک فرازؔ تمہیں تنہا ہو جو اب تک دکھ کے رسیا ہو
ورنہ اکثر دل والوں نے درد کا رستہ چھوڑ دیا ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment