اس کے ہونٹوں سے ادا ہونے لگا ہوں اب میں
ٹھہر، اے زیست! دعا ہونے لگا ہوں اب میں
خود سے لپٹا لے مجھے، چوم لے ماتھا میرا
زندگی تجھ سے جدا ہونے لگا ہوں اب میں
آنے والے ہیں ابھی مجھ پر کئی اور الزام
اب تجھے اور کہیں کا نہیں رہنے دوں گا
اے میرے دوست تیرا ہونے لگا ہوں اب میں
تیرے کہنے پہ ہدف خود کو کیا تھا میں نے
تیری خواہش پہ خطا ہونے لگا ہوں اب میں
اے زمین! تو نے بدن جھٹکا نہیں اب تک
دیکھ قدموں پہ کھڑا ہونے لگا ہوں اب میں
یہاں چہروں پہ نشاں تک نہیں کانوں کے ظہیرؔ
اور یہاں نغمہ سرا ہونے لگا ہوں اب میں
ثناء اللہ ظہیر
No comments:
Post a Comment