Thursday, 20 October 2016

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
دعا پہنچ بھی گئی خاکداں کے اندر سے
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
مجھے پڑاؤ میں خطرہ سفر سے بڑھ کر ہے
کہ راہزن ہے مِرے کارواں کے اندر سے
تُو مجھ میں آ کے مکیں ہو گیا تو ہر آسیب
نکل گیا ہے مِرے جسم و جاں کے اندر سے
میں صرف دیکھنے آیا ہوں رونقِ بازار
غرض نہیں ہے کسی بھی دکاں کے اندر سے
نئے سرے سے بنانا پڑا ہے اب خود کو
تلاش کر تے ہوئے رائیگاں کے اندر سے
تِرے خلاف گواہی جو بن گئے ہیں، وہ لفظ
لیے گئے ہیں تِرے ہی بیاں کے اندر سے
میں درمیاں ہوں الاؤ کے اور مِری آواز
تُو سن رہا ہے اسی درمیاں کے اندر سے
لگا رہا تو کسی دن کشید کر لوں گا
نئی زبان، پرانی زباں کے اندر سے
ابھی تو یہ در و دیوار جانتے ہیں مجھے
ابھی تو میں نہیں نکلا مکاں کے اندر سے
ظہیرؔ، پار اترنے کا فیصلہ جو کِیا
کنارہ مل گیا آبِ رواں کے اندر سے

ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment