Thursday 20 October 2016

کچھ لوگ جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے

کچھ لوگ
جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے
عمروں کے ریلے میں آئے
اور جا بھی چکے
کچھ دھندوں میں مصروف ہوئے
کچھ چوہا دوڑ میں جیتے گئے
کچھ ہار گئے
کچھ قتل ہوئے
کچھ بڑھتی بھیڑ میں
اپنے آپ سے دور ہوئے
کچھ ٹوٹ گئے، کچھ ڈوب گئے
مجھ پر اب یہ خوف چھایا ہے
میں کس سے ملنے جاؤں گا
میں کس کو پاس بلاؤں گا
آندھی ہے، گرم ہوا ہے، آگ برستی ہے
کچھ دیر ہوئی
اک صورت، شبنم سی صورت
اس تپتی راہ سے گزری تھی
دو بچے پیڑ کے پتوں میں چھپ کر بیٹھے تھے
ہنستے، شور مچاتے تھے
اک دوست پرانا
برسوں بعد ملا مجھ کو
اس جلتے دن کی
صبح کچھ ایسی روشن تھی
جب بادِ صبا وارفتہ رو
خوشبوؤں، نغموں ننھی منی باتوں کا
انداز لیے آنگن میں چلی
میں زندہ ہوں
یہ سوچ کے خوش ہوجاتا ہوں
وہ تھوڑی دیر تو میرے پاس سے گزری تھی
وہ میرے دل میں اتری تھی
اس بے محرم سے موسم میں
شاید وہ کل بھی آئے گی
شاید وہ کل بھی میری راہ سے گزرے گی

بلراج کومل

No comments:

Post a Comment