اک تازہ دھن اکتارے پر
اس شور بھرے سیارے پر
کسی دور دراز جزیرے میں
اک تازہ دھن اکتارے پر
موسم کے ایک اشارے پر
ہم بارش میں پیدل گھومیں
اور سفر کریں طیارے پر
جب برف جمی ہو پارے پر
میں اپنے ہونٹ جلا بیٹھوں
اک دہکے ہوئے انگارے پر
جلتے جذبوں کے دھارے پر
ہم رات رہیں طوفانوں میں
اور اتریں صبح کنارے پر
کسی دور دراز جزیرے میں
اک تازہ دھن اکتارے پر
موسم کے ایک اشارے پر
ہم بارش میں پیدل گھومیں
اور سفر کریں طیارے پر
جب برف جمی ہو پارے پر
میں اپنے ہونٹ جلا بیٹھوں
اک دہکے ہوئے انگارے پر
جلتے جذبوں کے دھارے پر
ہم رات رہیں طوفانوں میں
اور اتریں صبح کنارے پر
خاور احمد
No comments:
Post a Comment