محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
وہی ہوا ناں، بدلتے موسم میں تم نے ہم کو بھلا دیا ہے
کوئی بھی رُت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز میں ہی یارو
جدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا ہے، یہی تو دستور زندگی ہے
جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
چلو کہ فیضانؔ کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
فیضان عارف
No comments:
Post a Comment